وقت شناسی

وقت شناسی (۲/۱)

(یکم جنوری ۲۰۰۰)

“Kazo, Move fast, we are getting too late”.

“Papa, How did it get so late so soon!

“کازو، جلدی چلو، ہمیں بہت دیر ہو رہی ہے”۔

“ابا، اتنی جلدی اتنی دیر کیسے ہو گئی”! 

ایک یوروپین باپ اور اس کی دس سالہ لڑکی کے درمیان یہ مکالمہ میں نے اپنی عشائیہ چہل قدمی کے دوران ایک سوپر مارکیٹ کے قریب سے گزرتے ہوئے سنا۔ دونوں جملے انتہائی سادہ اور بظاہر تضاد پر مبنی ہیں، مگر میں نے غور کیا تو مجھے اس سرسری مکالمے میں انسانی زندگی کے ایک نہایت المناک پہلو کی تصویر جھلکتی نظر آئی۔ وہ ہے– وقت کی قدر نہ پہچاننا اور اس کے استعمال میں تباہ کن غفلت اور نادانی برتنا، جو غالباً انسانی تاریخ میں آج اپنی آخری حد کو پہنچ چکا ہے اور اس کے مہلک مظاہر شاید سب سے زیادہ مسلم گھرانوں اور بستیوں میں پائے جاتے ہیں(إلا ما شاء الله)۔  

آج کل بزنس کی دنیا میں وقت کی اہمیت بتاتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ وقت پیسہ ہے (Time is money )۔ مگر یہ وقت کی قدروقیمت کا بہت سطحی اندازہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وقت ، زندگی کی طرح، انمول ہے؛ بلکہ یہ کہنا درست ہو گا کہ زندگی عملاً وقت کے شعوری ادراک کا ہی دوسرا نام ہے جبکہ موت، وقت کے اسی شعوری ادراک کو کھو دینے کا نام ہے۔ 

مال و دولت اور دوسرے اسبابِ زندگی پر کم و بیش آپ براہ راست کنٹرول رکھ سکتے ہیں۔ جتنا چاہیں آپ انہیں خرچ کریں اور جتنا چاہیں اندوختہ کریں۔ مگر وقت کا سرمایہ ایسی چیز ہے جس پر کسی انسان کا کوئی کنٹرول نہیں۔ وہ براہ راست قدرت کے کنٹرول میں ہے۔ سونے یا چاندی کا ایک سکہ اگر کھو جائے تو آپ اسے تلاش کر کے یا مزید محنت کر کے دوبارہ پا سکتےہیں، لیکن وقت کے گزرتے ہوئے لمحات کو نہ آپ روک سکتے نہ کبھی کسی ایک گزرے ہوئے لمحہ کو کسی بھی قیمت پر لوٹا سکتے ہیں۔ گھڑی بظاہر آپ کو وقت بتاتی ہے، مگر زیادہ گہرائی سے سوچیں تو آپ پر منکشف ہو گا کہ گھڑی کی سوئیاں صرف یہ بتاتی ہیں کہ کتنا وقت آپ کی دست رس سے نکل چکا ہے اور مسلسل نکلا جا رہا ہے۔ 

دن اور رات کی شکل میں وقت کی مقدار اور رفتار، امیر اور فقیر، حاکم اور محکوم، چھوٹے اور بڑے، سب کے لئے یکساں ہے۔ وہ اشیائے صَرف کی طرح نہ دنیا کے کسی بازار میں خرید و فروخت کے لئے دستیاب ہوتا ہے نہ کسی کھیت یا کارخانہ میں اپنے حسب منشا یا حسب ضرورت اس کی پیداوار کی جا سکتی ہے۔ ایک مطلق العنان شہنشاہ اپنی تمام تر دولت اور سیاسی و عسکری طاقت کے زور پر اپنے دن اور رات کی پیمائش کو ایک بے سر و سامان فقیر کے دن اور رات کے مقابلہ میں نہ گھٹا سکتا ہے، نہ بڑھا سکتا ہے۔ کیوں کہ دونوں یکساں طور پر وقت کے “قبضہ” میں ہیں اور وقت ہر ایک کے “قبضہ” سے مکمل طور پر آزاد، خدا کی تخلیقی اسکیم کے مطابق؛ اپنے دامن میں ہر ایک کے عمل اور بے عملی یا حُسنِ عمل اور بد عملی کے آثار و نقوش لئے ہوئے، آگے کی طرف پیہم رواں دواں رہتا ہے۔ 

اس ضمن میں ایک اور نازک فرق، جو صورتِ حال کو مزید سنگین بنا دیتا ہے، یہ ہے کہ مال و دولت یا کوئی اور چیز جب تک استعمال نہ کی جائے وہ صَرف (خرچ) نہیں ہو گی، اسی لئےاسے آئندہ کے لئے بچا کر رکھا جا سکتا ہے۔ تاہم وقت کا معاملہ استثنائی طور پر ہر شئے سے مختلف ہے، آپ خواہ شعوری طور پر وقت کا استعمال کریں یا نہ کریں، وہ اپنی قدرتی رفتار سے لمحہ بہ لمحہ بلا توقف خود بخود صَرف ہوتا رہتا ہے اور جب کسی خارجی محرک کے تحت آپ گزرے ہوئے وقت کے بارے میں اپنی غفلت سے چونکتے ہیں، تو آپ کا رد عمل مذکورہ بچی کی طرح نا قابل فہم حیرت اور تضاد پر مبنی ہوتا ہے:”اتنی جلدی اتنی دیر کیسے ہو گئی”!

How did it get so late so soon!

وقت گزر جانے کے بعد آپ کسی شاعر کی حسرت آمیز خیالی ترنگ میں کتنا ہی لَے سے لَے ملائیں کہ:

“دوڑ پیچھےکی طرف اے گردشِ ایام تو”!

مگر وقت آپ کی حسرتوں اور خوش خیالیوں سے بے نیاز، آگے کی سمت ہی دوڑتا چلا جائے گا۔  

(باقی آئندہ)

Leave a comment